ملک عزیز ہندوستان آبادی کے اعتبار سے دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت ہے ،انگریزوں سے آزادی حاصل کرنے کے بعد ملک نے 26جنوری 1950میں اپناآئین حاصل کیا ،مختلف تہذیبوں اور مختلف مذاہب کا گہوارہ ہونے کیو جہ سے مذہبی رواداری ،جمہوریت اور سیکولراز ہندوستانی تہذیب کے ماتھے کا جھومر ہے یہاں کے باشندے مذہبی بنیادوں پر نہیں بلکہ انسانی بنیادوں پر ایک دوسرے کے دکھ اور در د اور خوشی وغم میں شریک ہوتے ہیں اور ایک دوسرے کے تیوہاروں میں شرکت کرتے ہیں ،آج بھی بنارس کی وہ مسجد جس کا راستہ مندر سے ہوکر گزرتا ہے ہندوستانی تہذیب کی عکاسی کرتی ہے ۔یہ ہندوستان کی خصوصیت ہے کہ یہاں مذاہب کے احترام کے پیش نظر ہر مذہب کی تبلیغ کی اجازت ہے اور ہر مذہب کے رہنما کو احترام کی نگاہوں سے دیکھا جاتا ہے ،اور مذہبی شخصیات کی توہین پر سزا دیجاتی ہے۔ ہندوستان اجتماعی،شخصی اورمذہبی آزادی کی مثال ہے ۔ آئین ہند میںہر قوم اور ہر مذہب کو مذہبی ،علاقائی،لسانی حقوق دیئے گئے ہیں ،لیکن تاریخ شاہد ہے کہ کچھ فرقہ پرست عناصر ملک کی آزادی سے ہی ملک میں تعمیر نہیں بلکہ مکمل تخریب کا بیڑہ اٹھائے ہوئے ہیں،انہیں ملک کا امن وامان ، یہاں کی قومی یکجہتی ،آپسی پیار ومحبت ،رواداری ایک آنکھ نہیں بھاتی یہی وہ لوگ ہیں جنہوں نے مہاتما گاندھی کا قتل کیا، اور جو آزادی ہند سے اب تک ملک میں فرقہ وارانہ فسادات کے ذمہ دار ہیں ،لیکن ملک کے سیکولر طبقے نے کبھی اس فرقہ پرست ذہنیت کو پنپنے نہیں دیا اور ملک کی اکثریت اور اقلیت نے مل کر ملک کو ایک گلدستے کے طور پر سجا ئے رکھا اور اس گلدستہ سے ان کانٹوں کو دور ہی رکھا ۔لیکن یہ ذہنیت اپنی تگ ودو میں لگی رہی اور ہمیشہ ملک کی اقلیتوں کوہراساں کرنے کی کوشش کرتی رہی ،گذشتہ چند سالوں میں اس فرقہ پرست ذہنیت نے نہ صرف یہ کہ اپنا رنگ دکھانا شروع کردیا ہے بلکہ ملک کے بنیادی ڈھانچے میں بھی اپنے ذہن کے لوگوں کو شامل کردیا۔ افسوس ناک پہلو یہ کہ وہ عوامی نمائندے جن پر عوام نے اعتماد کرکے ملک کی پارلیمنٹ میں بھیجا تاکہ وہ ملک کی خوشحال اور ترقی کے لئے اپنی ذہنی اور جسمانی توانیاں صرف کریں گے وہ بھی اس فرقہ پرستانہ ذہنیت کے شکار ہوگئے اور کھلم کھلا اقلیتوں کو مار دینے ، قومی ترقی میں بالکل پیچھے ڈھکیلنے اور پاکستان جانے کی دھمکیاں دینے لگے ہیں۔ اب حال یہ ہے کہ ملک کی مٹی کی خوشبو جن تہذیبوں کی عکاسی کیا کرتی تھی ان تہذیبوں کو ملیامیٹ کیا جانے لگاہے،حب الوطنی کا پیمانہ سرحد کی حفاظت سے ہٹ کر آر ایس ایس کے نظریات کی حفاظت تک محدود ہوگیاہے اور جس نے اس پیمانے کی خلاف ورزی کی بلادریغ اپنے اختیارات کا استعمال کرکے اس کو پس دیوار زنداں میں ٹھونس دیا گیا۔ آج ملک عزیز ان حالات سے گزر رہا ہے کہ جمہوری اقتدار اور روایات اپنا دم توڑ رہی ہیں ،یکجہتی ،رواداری جیسے الفاظ اپنا منھ چھپا رہے ہیں ،ملک کے لئے جام شہادت نوش کرنے والے شہداء کی روحیں بے چین ومضطرب ہیں ،حق اور انصاف کی بات کرنے والوں کی زبانوں پر تالا ڈالا جارہا ہے ،جمہوریت کا چوتھا ستون جس کا مقصد جمہوریت کی حفاظت کرنا تھا وہ عدالتیں سجائے بیٹھا ہے اپنی ذمہ داریوں کو بھول کر جمہوریت کا جنازہ اٹھانے والوں کی پہلی صف میں تکبیر آر ایس ایس پڑھ رہاہے۔ میڈیا ٹرائل کی فضا ہموار کردی گئی ہے، زرد صحافت نے ایماندار صحافیوں کو اپنی اوچھی حرکتوں سے شرمندہ کردیا ہے ،وہ جسے چاہ رہے ہیں حب الوطنی کے سرٹیفکیٹ سے نواز رہے ہیں اور جس کو چاہ رہے ہیں غدار وطن قرار دے رہے ہیں،کالے کوٹ پہنے ہوئے لوگوں کے ذریعے عدالتوں میں انصاف نہیں ظلم ڈھایا جایا رہا ہے،محکمہ تعلیم ،تعلیم یافتہ افراد نہیں بلکہ ٹی وی سیریل کی اداکارہ کے ہاتھ میںدیا جاچکا ہے ،ملک کی باگ
ڈور انصاف پسند فرد کے کے ہاتھ میں نہیں بلکہ ہزاروں معصوم لوگوں کے قاتل کے ہاتھ میں دے دی گئی ہے انصاف کے دوہرے پیمانے قائم کردیئے گئے ہیں ،انصاف کے پیمانے جمہوری اقدار سے بالکل اُلٹ گئے ہیں ایک طرف افضل گرو اور مقبول بھٹ کے پھانسی پر سوال کرنے والے کو جیل کی سلاخوں کے پیچھے ڈالا جارہا ہے وہیں دوسری جانب ملک کے سب سے پہلے دہشت گرد، قاتل جمہوریت گوڈ سے کے پھانسی پر سوال کرنے والوں کو وزارتیں سونپی جارہی ہیں ،جہاں ایک طرف جھوٹے الزامات میں پھنسا کر آر ایس ایس کی حقیقت بیان کرنے والے طلباء لیڈر کو جیل کے سلاخوں کے پیچھے ڈال دیا جاتا ہے وہیں دوسری طرف بابری مسجد کے شہادت کے دن کو یوم الفتح کے طور پر منانے والوں کو گلے سے لگایا جاتاہے ،ملک میں یہ دوہرے پیمانے صرف مسلمانوں کے ساتھ نہیں اپنائے جارہے ہیں بلکہ ملک کی اقلیتیں بھی نشانوں پر ہیں ۔ یوم جمہوریہ کو سیاہ دن کے طور پر منانے والے غدار نہیں ہیں ،لیکن طلباء کی حمایت اور ان پر ظلم وستم کے خلاف آواز اٹھانے والے غدار ہیں ۔ بی جے پی کی مخالفت کرنے پر ملک کا بہترین دماغ اسکالر خودکشی کرنے پر مجبور کردیا جاتا ہے ،دلتوں کو ملک کے لیڈر کتا کہدیتے ہیں لیکن اگر کوئی ملکی وزارتوں سے اپنے حقوق کا سوال کرتے ہوئے کچھ سخت جملوں کا استعمال کرلے تو اس پر سڈیشن کے قانون کے تحت الزام عائد کردیا جاتا ہے ،مظلوموں کے حقوق کی بازیابی کے لئے لڑنے والوں کو غدار کہہ کر مسترد کردیا جاتا ہے ،ملک کے پسماندہ طبقات کے لئے ریزرویشن دینے کا صرف وعدہ کیا جاتا ہے اور وہ وعدہ کبھی وفا نہیں ہوتا ۔ ملک کا کسان اپنے حقوق نہ ملنے کی وجہ سے خودکشی کرنے پر مجبور ہورہاہے، لیکن ان کی خودکشی پر حکومت کو کوئی افسوس نہیں ہوتا ۔ اور دوسری جانب ایک خوشحال قوم اپنی غنڈہ گردی کی بنیاد پر حکومت کو مجبور کرکے اپنے لئے ریزرویشن کا مطالبہ کرکے اس مطالبہ کو حکومت سے منوابھی لیتی ہے ۔ملک میں انصاف کے پیمانے کا اندازہ اسی سے لگایا جاسکتا ہے کہ جاٹ ریزرویشن تحریک میں اجتماعی عصمت دری کے بہت سے ایسے واقعات پیش آئے جسے کو سن کر رونگٹے کھڑے ہوجاتے ہیں ،عصمتیں تار تار کی گئیں چادر اور چہار دیواری کے تقدس کو پامال کیا گیا،غیر جاٹ برادریوں کے اموال پر ڈاکہ ڈالا گیا ملک کو کروڑوں کا نقصان ہوا لیکن ان کے خلاف کوئی کاروائی نہیں کی گئی ، ان پر مقدمات نافذ نہیں کئے گئے ،ان پر غداری کا الزام نہیں لگایا گیا ،بلکہ ان کو ان گھنائونے جرائم اور غیر جاٹوں کی مائوں بہنوں کی عصمتیں تار تار کرنے پر انعام واکرام سے نوازتے ہوئے ان کی مانگوں کو تسلیم کرنے کا وعدہ حکومت ہند کو کرنا پڑا کیا حکومت کا یہ عمل جمہوریت کے اصول کے منافی نہیں ہے ؟ کیا یہی ہندوستان ہے ؟ جس کی قومی یکجہتی پر ہم فخر کرتے ہیں ؟ کیا ہمیں اپنی آئندہ نسلوں کو اپنے ملک کے حالات بتاتے ہوئے شرم نہیں آئے گی؟ اگر اگلی نسلوں نے ہم سے سوال کرلیا کہ ہمارا ملک تو جمہوری اقدار کا حامل ہے پھر یہاں عمر خالد ،انربان بھٹاچاریہ،کنہیاکمار روہت ویمولا پر ظلم وستم کیوں کیا جارہا ہے اور وہی بات کہنے پر پی چدمبرم سے سوال کیوں نہیں کیا جاتا ؟دہلی میں عصمت دری کے واقعے پر پورا ملک دہل اٹھتا ہے جب وہی عصمت دری کا واقعہ ہریانہ میں پیش آتا ہے تو انصاف کے ٹھیکیدارنظر نہیں آتے ؟ کیا ہریانہ کی بیٹی بیٹی نہیں تھی ،اقلیتوں کے اموال کو نقصان پہنچانے والوں سے باز پرس کیوں نہیں کی جاتی ؟ کیا وہ انسان نہیں تھے یا وہ اس ملک سے تعلق نہیں رکھتے ؟جن کی دوکانیں نذر آتش کی گئیں ،جن کی بیٹیوں کی عصمتیں لوٹی گئیں کیا وہ اس ملک کے باشندے نہیں تھے ؟کیا جواب دیں گے ہم اپنی نسلوں کو؟ کیا مؤرخ اس دور کو جمہوریت کا سیاہ باب نہیں گردانے گا ۔
نازش ہماقاسمی
9322244439